اسلامی ریاست میں غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کے حقوق

از:محمدابراہیم قاسمی‏، استاذ ادب مدرسہ فرقانیہ گونڈہ

 

اسلام ان تمام حقوق میں،جو کسی مذہبی فریضہ اور عبادت سے متعلق نہ ہوں؛ بلکہ ان کا تعلق ریاست کے نظم و ضبط اور شہریوں کے بنیادی حقوق سے ہو غیرمسلم اقلیتوں اور مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف اور مساوات قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن میں ان غیرمسلموں کے ساتھ، جو اسلام اور مسلمانوں سے برسرپیکار نہ ہوں اور نہ ان کے خلاف کسی شازشی سرگرمی میں مبتلا ہوں، خیرخواہی، مروت، حسن سلوک اور رواداری کی ہدایت دی گئی ہے۔

لاینہٰکم اللّٰہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین، ولم یخرجوکم من دیارکم أن تبروہم وتقسطوا الیہم (الممتحنة: ۸)

اللہ تم کو منع نہیں کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک۔

اسلامی ریاست میں تمام غیرمسلم اقلیتوں اور رعایا کو عقیدہ، مذہب، جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت حاصل ہوگی۔ وہ انسانی بنیاد پر شہری آزادی اور بنیادی حقوق میں مسلمانوں کے برابر شریک ہوں گے۔ قانون کی نظر میں سب کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جائے گا، بحیثیت انسان کسی کے ساتھ کوئی امتیاز روا نہیں رکھا جائے گا۔ جزیہ قبول کرنے کے بعد ان پر وہی واجبات اور ذمہ داریاں عائد ہوں گی، جو مسلمانوں پر عائد ہیں، انھیں وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مسلمانوں کو حاصل ہیں اور ان تمام مراعات و سہولیات کے مستحق ہوں گے، جن کے مسلمان ہیں۔

”فان قبلوا الذمة فأعْلِمْہم أن لہم ما للمسلمین وعلیہم ما علی المسلمین“ (بدائع الصنائع، ج:۶، ص: ۶۲)

اگر وہ ذمہ قبول کرلیں، تو انھیں بتادو کہ جو حقوق و مراعات مسلمانوں کو حاصل ہیں، وہی ان کو بھی حاصل ہوں گی اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر عائد ہیں وہی ان پر بھی عائد ہوں گی۔

تحفظ جان:

جان کے تحفظ میں ایک مسلم اور غیرمسلم دونوں برابر ہیں دونوں کی جان کا یکساں تحفظ و احترام کیا جائے گا اسلامی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی غیرمسلم رعایا کی جان کا تحفظ کرے اور انھیں ظلم و زیادتی سے محفوظ رکھے۔ پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”من قتل معاہدًا لم یرح رائحة الجنة، وان ریحہا لیوجد من مسیرة أربعین عامًا“ (بخاری شریف کتاب الجہاد، باب اثم من قتل معاہدًا بغیر جرمِ، ج:۱، ص: ۴۴۸)

جو کسی معاہد کو قتل کرے گا وہ جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے بھی محسوس ہوتی ہے۔

حضرت عمر نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:

”میں اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و ذمہ کی وصیت کرتا ہوں کہ ذمیوں کے عہد کو وفا کیا جائے، ان کی حفاظت و دفاع میں جنگ کی جائے، اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بار نہ ڈالا جائے۔“(۱)

تحفظ مال:

اسلامی ریاست مسلمانوں کی طرح ذمیوں کے مال وجائیداد کا تحفظ کرے گی، انھیں حق ملکیت سے بے دخل کرے گی نہ ان کی زمینوں اور جائیدادوں پر زبردستی قبضہ، حتیٰ کہ اگر وہ جزیہ نہ دیں، تو اس کے عوض بھی ان کی املاک کو نیلام وغیرہ نہیں کرے گی۔ حضرت علی نے اپنے ایک عامل کو لکھا:

”خراج میں ان کا گدھا، ان کی گائے اور ان کے کپڑے ہرگز نہ بیچنا۔“(۲)

ذمیوں کو مسلمانوں کی طرح خرید و فروخت، صنعت و حرفت اور دوسرے تمام ذرائع معاش کے حقوق حاصل ہوں گے، اس کے علاوہ، وہ شراب اور خنزیر کی خریدوفروخت بھی کرسکتے ہیں۔ نیز انھیں اپنی املاک میں مالکانہ تصرف کرنے کا حق ہوگا، وہ اپنی ملکیت وصیت و ہبہ وغیرہ کے ذریعہ دوسروں کو منتقل بھی کرسکتے ہیں۔ ان کی جائیدادانھیں کے ورثہ میں تقسیم بھی ہوگی، حتیٰ کہ اگر کسی ذمی کے حساب میں جزیہ کا بقایا واجب الادا تھا اور وہ مرگیا تو اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثہ پر کوئی دباؤ ڈالا جائے گا۔

کسی جائز طریقے کے بغیر کسی ذمی کا مال لینا جائز نہیں ہے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

”ألا ! لا تحل أموال المعاہدین الا بحقہا“(۳)

خبردار معاہدین کے اموال حق کے بغیر حلال نہیں ہیں۔

تحفظِ عزت و آبرو:

مسلمانوں کی طرح ذمیوں کی عزت وآبرو اور عصمت و عفت کا تحفظ کیاجائے گا، اسلامی ریاست کے کسی شہری کی توہین و تذلیل نہیں کی جائے گی۔ ایک ذمی کی عزت پر حملہ کرنا، اس کی غیبت کرنا، اس کی ذاتی و شخصی زندگی کا تجسس، اس کے راز کو ٹوہنا،اسے مارنا، پیٹنا اور گالی دینا ایسے ہی ناجائز اور حرام ہے، جس طرح ایک مسلمان کے حق میں۔

”ویجب کف الأذی عنہ، وتحرم غیبتہ کالمسلم“ (۴)

اس کو تکلیف دینے سے رکنا واجب ہے اوراس کی غیبت ایسی ہی حرام ہے جیسی کسی مسلمان کی۔

عدالتی و قانونی تحفظ:

فوج داری اور دیوانی قانون ومقدمات مسلم اور ذمی دونوں کے لیے یکساں اور مساوی ہیں، جو تعزیرات اور سزائیں مسلمانوں کے لیے ہیں، وہی غیرمسلموں کے لیے بھی ہیں۔ چوری، زنا اور تہمتِ زنا میں دونوں کو ایک ہی سزا دی جائے گی، ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کیا جائے گا۔ قصاص، دیت اور ضمان میں بھی دونوں برابر ہیں۔ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی کو قتل کردے، تواس کو قصاص میں قتل کیاجائے گا۔ حدیث شریف میں ہے:

”دماوٴہم کدمائنا“ (۵)

ان کے خون ہمارے خون ہی کی طرح ہیں۔

حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مسلمان نے ایک ذمی کو قتل کردیا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو قصاص میں قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا:

”أنا أحق من وفیٰ بذمتہ“ (۶)

میں ان لوگوں میں سب سے زیادہ حقدار ہوں جو اپنا وعدہ وفا کرتے ہیں۔

البتہ ذمیوں کے لیے شراب اور خنزیر کو قانون سے مستثنیٰ کردیاگیا ہے، چنانچہ انھیں خنزیر رکھنے، کھانے اور خرید و فروخت کرنے،اسی طرح شراب بنانے، پینے اور بیچنے کا حق ہے۔

مذہبی آزادی:

ذمیوں کو اعتقادات و عبادات اور مذہبی مراسم وشعائر میں مکمل آزادی حاصل ہوگی، ان کے اعتقاد اور مذہبی معاملات سے تعرض نہیں کیا جائے گا، ان کے کنائس، گرجوں، مندروں اور عبادت گاہوں کو منہدم نہیں کیا جائے گا۔

قرآن نے صاف صاف کہہ دیا:

لا اکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي (البقرہ)

دین کے معاملہ میں کوئی جبر واکراہ نہیں ہے، ہدایت گمراہی سے جدا ہوگئی۔

وہ بستیاں جو امصار المسلمین (اسلامی شہروں) میں داخل نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو صلیب نکالنے، ناقوس اور گھنٹے بجانے اور مذہبی جلوس نکالنے کی آزادی ہوگی، اگر ان کی عبادت گاہیں ٹوٹ پھوٹ جائیں، تو ان کی مرمت اور ان کی جگہوں پر نئی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ امصار المسلمین یعنی ان شہروں میں، جو جمعہ عیدین، اقامت حدود اور مذہبی شعائر کی ادائیگی کے لیے مخصوص ہیں، انھیں کھلے عام مذہبی شعائر ادا کرنے اور دینی و قومی جلوس نکالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اور نہ وہ ان جگہوں میں نئی عبادت گاہیں تعمیر کرسکتے ہیں۔ البتہ عبادت گاہوں کے اندر انھیں مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ اور عبادت گاہوں کی مرمت بھی کرسکتے ہیں۔

وہ فسق و فجور جس کی حرمت کے اہل ذمہ خود قائل ہیں اور جو ان کے دین و دھرم میں حرام ہیں، تو ان کے اعلانیہ ارتکاب سے انھیں روکا جائے گا۔ خواہ وہ امصار المسلمین میں ہوں یا اپنے امصار میں ہوں۔

ذمی اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے مذہبی درسگاہیں بھی قائم کرسکتے ہیں۔ انھیں اپنے دین و مذہب کی تعلیم و تبلیغ اور مثبت انداز میں خوبیاں بیان کرنے کی بھی آزادی ہوگی۔

اسلامی ریاست ذمیوں کے پرسنل لاء میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی، بلکہ انھیں ان کے مذہب و اعتقاد پر چھوڑ دے گی وہ جس طرح چاہیں اپنے دین و مذہب پر عمل کریں۔ نکاح، طلاق، وصیت، ہبہ، نان و نفقہ، عدت اور وراثت کے جو طریقے ان کے دھرم میں جائز ہیں، انھیں ان پر عمل کرنے کی مکمل آزادی ہوگی، خواہ وہ اسلامی قانون کی رو سے حرام و ناجائز ہی کیوں نہ ہوں۔ مثلاً اگر ان کے یہاں محرمات سے نکاح بغیر گواہ اور مہر کے جائز ہے، تو اسلامی ریاست انھیں اس سے نہیں روکے گی؛ بلکہ اسلامی عدالت ان کے قانون کے مطابق ہی فیصلہ کرے گی۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت حسن سے اس سلسلے میں ایک استفتاء کیا تھا:

”ما بال الخلفاء الراشدین، ترکوا أہل الذمة، وماہم علیہ من نکاح المحارم، واقتناء الخمور والخنازیر“

کیا بات ہے کہ خلفاء راشدین نے ذمیوں کو محرمات کے ساتھ نکاح اور شراب اور سوَر کے معاملہ میں آزاد چھوڑدیا۔

جواب میں حضرت حسن نے لکھا:

”انما بذلوا الجزیة لیترکوا وما یعتقدون، وانما أنت متبع لا مبتدع“

انھوں نے جزیہ دینا اسی لیے تو قبول کیاہے کہ انھیں ان کے عقیدے کے مطابق زندگی بسر کرنے کی اجازت دی جائے۔ آپ کاکام پچھلے طریقے کی پیروی کرنا ہے نہ کہ کوئی نیا طریقہ ایجاد کرنا“(۷)

منصب وملازمت:

اسلامی آئین سے وفاداری کی شرط پوری نہ کرنے کی وجہ سے اہل ذمہ پالیسی ساز اداروں، تفویض وزارتوں اور ان مناصب پر فائز نہیں ہوسکتے ہیں، جو اسلام کے نظامِ حکومت میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں، بقیہ تمام ملازمتوں اور عہدوں کے دروازے ان کے لیے کھلے ہیں۔ اس سلسلے میں ماوردی نے ذمیوں کی پوزیشن ظاہر کرتے ہوئے لکھاہے:

”ایک ذمی وزیر تنفیذ ہوسکتا ہے، مگر وزیر تفویض نہیں۔ جس طرح ان دونوں عہدوں کے اختیارات میں فرق ہے، اسی طرح ان کے شرائط میں بھی فرق ہے۔ یہ فرق ان چار صورتوں سے نمایاں ہوتا ہے: پہلے یہ کہ وزیر تفویض خود ہی احکام نافذ کرسکتا ہے اور فوج داری مقدمات کا تصفیہ کرسکتا ہے، یہ اختیارات وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں۔ دوسرے یہ کہ وزیر تفویض کو سرکاری عہدے دار مقرر کرنے کا حق ہے، مگر وزیر تنفیذ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ تیسرے یہ کہ وزیر تفویض تمام جنگی انتظامات خود کرسکتا ہے وزیر تنفیذ کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ چوتھے یہ کہ وزیر تفویض کو خزانے پر اختیار حاصل ہے وہ سرکاری مطالبہ وصول کرسکتا ہے اور جو کچھ سرکار پر واجب ہے اسے ادا کرسکتا ہے۔ یہ حق بھی وزیر تنفیذ کو حاصل نہیں ہے۔ ان چار شرطوں کے علاوہ اور کوئی بات ایسی نہیں جو ذمیوں کو اس منصب پر فائز ہونے سے روک سکے“(۸)

اسلامی خزانے سے غیرمسلم محتاجوں کی امداد

صدقات واجبہ (مثلاً زکوٰة عشر) کے علاوہ بیت المال کے محاصل کا تعلق جس طرح مسلمانوں کی ضروریات و حاجات سے ہے، اسی طرح غیرمسلم ذمیوں کی ضروریات و حاجات سے بھی ہے، ان کے فقراء ومساکین اور دوسرے ضرورت مندوں کے لیے اسلام بغیر کسی تفریق کے وظائف معاش کا سلسلہ قائم کرتا ہے۔ خلیفہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شہری محروم المعیشت نہ رہے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر نے گشت کے دوران میں ایک دروازے پر ایک ضعیف العمر نابینا کو دیکھا آپ نے اس کی پشت پر ہاتھ رکھ کر پوچھا کہ تم اہل کتاب کے کس گروہ سے تعلق رکھتے ہو،اس نے جواب دیا کہ میں یہودی ہوں۔

حضرت عمر نے دریافت کیا کہ گداگری کی یہ نوبت کیسے آئی۔ یہودی نے کہا۔ ادائے جزیہ، شکم پروری اور پیری سہ گونہ مصائب کی وجہ سے۔ حضرت عمر نے یہ سن کر اس کا ہاتھ پکڑ کر گھرلائے اور جو موجودتھا،اس کو دیا اور بیت المال کے خازن کو لکھا:

”یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو۔ خدا کی قسم ہرگز یہ ہمارا انصاف نہیں ہے کہ ہم جوانی میں ان سے جزیہ وصول کریں اور بڑھاپے میں انھیں بھیک کی ذلت کے لیے چھوڑ دیں قرآن کریم کی اس آیت (انما الصدقات للفقراء والمساکین) میں میرے نزدیک فقراء سے مسلمان مراد ہیں اور مساکین سے اہل کتاب کے فقراء اور غرباء۔ اس کے بعد حضرت عمر نے ایسے تمام لوگوں سے جزیہ معاف کرکے بیت المال سے وظیفہ بھی مقرر کردیا۔“(۹)

حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں حضرت خالد بن ولید نے اہل حیرہ کے لیے جو عہدنامہ لکھا وہ حقوق معاشرت میں مسلم اور غیرمسلم کی ہمسری کی روشن مثال ہے:

”اورمیں یہ طے کرتاہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعف پیری کی وجہ سے ناکارہ ہوجائے، یا آفت ارضی و سماوی میں سے کسی آفت میں مبتلا ہوجائے، یا ان میں سے کوئی مالدار محتاج ہوجائے اوراس کے اہل مذہب اس کو خیرات دینے لگیں، تو ایسے تمام اشخاص سے جزیہ معاف ہے۔ اور بیت المال ان کی اور ان کی اہل وعیال کی معاش کا کفیل ہے۔ جب تک وہ دارالاسلام میں مقیم رہیں۔“ (۱۰)

معاہدین کے حقوق

مذکورہ بالا حقوق میں تمام اہل ذمہ شریک ہیں، البتہ وہ غیرمسلم رعایا، جو جنگ کے بغیر، یا دوران جنگ مغلوب ہونے سے پہلے،کسی معاہدے یا صلح نامے کے ذریعہ اسلامی ریاست کے شہری ہوگئے ہوں تو ان کے ساتھ شرائط صلح کے مطابق معاملہ کیا جائے گا۔ ان شرائط پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ ان سے ایک سرمو بھی تجاوز نہیں کیا جائے گا، نہ ان پر کسی قسم کی زیادتی کی جائے گی، نہ ان کے حقوق میں کمی کی جائے گی۔ نہ ان کی مذہبی آزادی سلب کی جائے گی، نہ ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا جائے گا۔

معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے کو آخرت میں باز پرس کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے خلاف قیامت کے دن مستغیث ہوں گے۔

”ألا من ظلم معاہدًا، أو انتقصہ، أو خلفہ فوق طاقتہ أو أخذ منہ شیئًا بغیر طیب نفس، فأنا حجیجہ یوم القیامة“

خبردار! جو شخص کسی معاہد پر ظلم کرے گا، یا اس کے حقوق میں کمی کرے گا، یا اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا، یا اس سے کوئی چیزاس کی مرضی کے خلاف وصول کرے گا،اس کے خلاف قیامت کے دن میں خود مستغیث بنوں گا۔(۱۱)

$ $ $

حواشی:

(۱)         حضرت عمر کے سیاسی نظرئیے، ص: ۹۳ : ابو یحییٰ امام خان ، مطبوعہ گوشہٴ ادب چوک انارکلی لاہور

(۲)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۲۰

(۳)        ابوداؤد کتاب الاطعمة باب ما جاء فی اکل السباع

(۴)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۱۵

(۵)        نصب الرایة، ج:۲، ص: ۳۸۱

(۶)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۱۱

(۷)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۱۱

(۸)        بنیادی حقوق، ص: ۳۱۱

(۹)         اسلام کا اقتصادی نظام، ص: ۱۵۱

(۱۰)       اسلام کا اقتصادی نظام

(۱۱)        اسلامی حکومت میں غیرمسلموں کے حقوق، ص: ۶

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد: 90 ‏،جمادی الاول1427 ہجری مطابق جون2006ء